سندھ ایرانی اور ساسانی دور میں ایرانی حکومت کا سرحدی صوبہ۔


۔


  پاکستان کے موجودہ صوبے سندھ پنجاب بلوچستان صوبہ پختون خواہ کی اصل تاریخ اور  قدیم ایرانی حکومت اور اس کی حدود 
پاکستان کے  موجودہ صوبوں  سندھ پنجاب بلوچستان صوبہ پختون خواہ کا جائیزہ تاریخ کے اعتبار سے اگر لیا جائے اور اس حوالے سے پاکستان میں تاریخ کے حوالے سے شائع ہونے والی کتابوں اور تحقیقاتی مواد جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے سے ہٹ کر پاکستان سے متصل ممالک  چین ایران بھارت اور افغانستان میں شائع  ہونے والی تحقیقاتی کتابیں اور مواد کا جائیزہ اگر لیا جائے  تو یہ بات اور سچائی  کے ساتھ ہمارے سامنے آئے گی کہ جو تاریخ اس خطے کے کچھ مخصوص دانشور اور نام نہاد تاریخ دان عوام الناس کو سمجھانے اور بتانے کی کوشش کررہے ہیں اس خطے کی تاریخ اس کے بالکل برعکس ہے
اگرچے کہ پاکستان کی تاریخ یقینا  بہت قدیم ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ہی علاقوں  کی تاریخ  اس طرح سے  باقائدہ تحریری شکل میں ہمیں نہیں ملے گی جس طرح ایران افغانستان ، چین،بھارت کی قدیم تاریخ مل جائے  گی   پھر دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں تعلیم کی بے انتہا کمی ہے   ۔
 یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ مخصوص دانشوروں اور نام نہاد تاریخ دانوں  نے عوام کو اپنے مفادات کی خاطر وہ کچھ تاریخ کے نام پر بتانے جتانے سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے جو کچھ انہوں نے اپنے مفادات کے لیئے ضروری سمجھا ان نام نہاد دانشوروں اور نام نہاد تاریخ دانوں نے تاریخ کے نام پر ہر طرح کا جھوٹ عوام کو بتایا حالانکہ ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ پاکستانی قوم کے معصوم اور  محبت کرنے والے عوام کو سچ بتائیں  اس کی بہت واضح اور نمایاں مثال اس طرح کی ہے کہ کراچی میں حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل میوزیم  سندھ اسمبلی کے بالکل ہی عقب میں موجود ہے جو آئی آئی چندریگر روڈ سے انتہائی نزدیک ہے اور برنس روڈ اور ایم اے جناح روڈ سے نیشنل میوزیم تک پیدل 
نیشنل میوزیم کراچی کا محل وقوع اور اس تک پہنچنے کے راستے
پہنچنے میں کچھ منٹ  لگتے ہیں
نیشنل میوزیم کراچی میں پاکستان اور سندھ کی تاریخ کے حوالے سے  کچھ گیلریاں بنائی ہوئی ہِیں جس میں پاکستان کی تاریخ   کا جائیزہ مختلف ادوار کے اعتبار سے لیا گیا ہے
نیشنل میوزیم کراچی کی قیمتی عمارت 
 یقینا اس کام کے لیئے قومی خزانے کے کروڑوں روپے خرچ کیئے گئے ہوں گے  معلوم نہیں کہ اس کا آڈٹ بھی ہوتا ہے یا نہیں یا دادا جی کی فاتحہ تصور کرکے اڑا دیئے جاتے ہیں یقینا نیب والوں کے لیئے یہاں بھی دلچسپی کا سامان مئیسر ہے ؟؟؟؟
حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ سندھ کی تاریخ کےحوالے  سے عوام الناس کے سامنے جو کچھ تاریخ لانے کی کوشش کی گئی ہے اس مین یہ تو بتایا گیا ہے کہ راجہ داہر کے وقت اور اس سے قبل اس کے والد رائے چچ کے دور میں سندھ کا مذہب ہندو مذہب تھا اور اس ہندو مذہب کا ثبوت بھی بڑے ہی بھونڈے انداز میں دیا گیا ہے مگر جن دانشور حضرات نے یہ گیلری کروڑوں روپے لے کر بنائی انہوں نے معلوم نہیں کہ کیوں پاکستانی عوام کو یہ بتانے کی ذحمت نہیں کی؟؟؟؟؟؟ کہ سندھ کے عوام کی اکثریت کا مذہب راجہ داہر اور اس کے باپ راجہ چچ کے دور میں بدھ مذہب تھا یہ ہی نہیں بلکے نیشنل میوزیم    کے ارباب و اختیار نے پوری پوری کوشش کی ہے کہ  معصوم عوام کو یہ بتایا اور جتایا جائے کہ سندھ مِں ہندو مذہب کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب تھا ہی نہیں  سندھ کے قدیم دور کے  مذاہب کی تاریخ کے حوالے سے یہ سوال نیشنل میوزیم کے زمے داروں اور ان نام نہاد تاریخ دانوں کے لیئے ایک چیلنج ہے اور اگر یہ بات غلط ہے تو ان سے درخواست  ہے کہ وہ سندھ کی تاریخ کے حوالے سے عوام کے سامنے صحیح اور اصل بات لے کر آئیں تاکہ عوام جان سکیں کہ سچ اور حق کیا ہے اور معصوم عوام کو کس لیئے اس طرح کا دھوکہ دیا گیا ہے 
بات دور  نکل گئی پاکستان کے  موجودہ صوبوں  سندھ پنجاب بلوچستان صوبہ پختون خواہ کی تارِیخ اور قدیم ایرانی حکومت کی حدود کے حوالے سے بات شروع کی گئی تھے قدیم  ایرانی تاریخوں میں یہ بات بالکل واضح طور پر موجود 
ہے کہ پاکستان کے موجودہ چاروں صوبے دراصل ایرانی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اس بات کو چابت کرنے کے لیئے یہاں ایرانی حکومتوں کی تاریخ کا مختصر جائیزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں 

حخمانیشی سلطنت
حخمانیشی سلطنت (قدیم فارسی: حخمانیشیہ)
559 قبل مسیح سے 338 قبل مسیح تک قائم ایک فارسی 


 یہ ایران کی اہم ترین سلطنت تھی جو عظیم ایرانی سلطنتوں کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔ 
حخمانیشی مملکت میں موجودہ ایران کے علاوہ مشرق میں موجودہ افغانستان، پاکستان کے  حصے
حخمانیشی مملکت کی حدود  اس میں ایرانی حکومت کی سرحدیں
 دریائے سندھ تک دکھائی گئیں ہِیں 
،
 شمال اور مغرب میں مکمل اناطولیہ یعنی موجودہ ترکی، بالائی جزیرہ نما بلقان (تھریس) اور بحیرہ اسود کا بیشتر ساحلی علاقہ شامل تھا۔ مغرب میں اس میں موجودہ عراق، شمالی سعودی عرب، فلسطین (اردن، اسرائیل اور لبنان) اور قدیم مصر کے تمام اہم مراکز شامل تھے۔ مغرب میں اس کی سرحدیں لیبیا تک پھیلی ہوئیں تھیں۔

 7.5 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی حخمانیشی سلطنت تاریخ کی وسیع ترین سلطنت تھی اور آبادی کے لحاظ سے رومی سلطنت کے بعد دوسری سب سے بڑی سلطنت تھی۔ یہ سلطنت 330 قبل مسیح میں سکندر اعظم کے ہاتھوں ختم ہوگئی


سلطنت کا پہلا حکمران کورش اعظم یا سائرس اعظم تھا جبکہ دارا سوم اس کا آخری حکمران تھا۔ جس کو سکندر مقدونی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا  حخمانیشی سلطنت کادارالحکومت پرسیپولس یعنی تخت جمشید تھا جبکہ آتش 
پرستی ریاستی مذہب تھا۔ 
اس خطے میں اسلام کی آمد سے قبل ساسانی سلطنت چوتھی ایرانی اور دوسری فارسی سلطنت تھی جو 226ء سے 651ء تک قائم رہی۔
ساسانی سلطنت کا بانی ارد شیر اول تھا جس نےپارتھیا کے آخری بادشاہ ارتبانوس چہارم کو شکست دے کر سلطنت کی بنیاد رکھی جبکہ آخری ساسانی شہنشاہ یزد گرد سوئم (632ء تا 651ء) تھا جو دین اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں ناکام رہا اور ایران خلافت اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔
ساسانی سلطنت موجودہ ایران، عراق، آرمینیا، افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان،
نقشہ ملاحظہ کیجیے ایرانی حکومت کی حدود میں بلوچستان  مکمل طور پر  موجودہ سندھ  کا  دریائے سندھ کےمغربی کنارے تک حصہ  اور پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کا کچھ حصہ  شامل تھا 
قفقاز، وسط ایشیا اور عرب پر محیط تھی۔خسرو ثانی (590ء تا 628ء) کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی سلطنت میں شامل ہوگئے۔ ایرانی ساسانی سلطنت کو "ایران شہر" کہتے ہیں۔
جاری ہے