کراچی سے بازیافت کردہ بدھ مذہب کے آثار


الإعلان 
گذشتہ دنوں کراچی کے صنعتی علاقے میں پولیس نے بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے مجسمے اور دیگر اشیا برآمد کی ہیں  ان کے بارے مین یہ عجیب و غریب موقف اختیا ر کیا گیا ہے یہ مجسمے اور دیگر اشیا صوبہ پختونخواہ سے  کراچی لائے گئے تھے اور اب ان کو دوبارہ واپس صوبہ پختونخواہ لیجایا جارہا تھا اس خبر کے حوالے سے اہم تر پہلو یہ کہ تمام تر تحقیقات اور صوبہ پختونخواہ کی حکومت کی تمم کوششوں کے باوجود ان آثار قدیمہ کے بارے میں اب تک یہ بات ثابت نہیں کی جاچکی ہے کہ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہے یا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ ان  آثار کو کراچی کے نیشنل میوزیم کے حوالے کردیا گیا ہے ۔۔۔۔۔
بدھ مذہب کی تاریخ کے حوالے سے اگر غور کیا جائے تو سندھ میں بدھ مذاہب کے قدیم آثار یقینا موجود ہیں مگر ان کو مفاد پرست طبقہ اپنے مالی مفادات کے باعث عوام الناس کے سامنے نہیں لاتا ہے کیونکہ اگر یہ بات سامنے آجائے تو پھر ان مفاد پرستوں کے پیٹ پر پتھر پڑ جائِں گے جیسا کہ ابھی کراچی میں ہوا کہ بدھ مذہب کے مقدس آثار کی بڑی تعداد پولیس کے زریعے برآمد ہوئی



 ان آثار کے حوالے سے یہ بات کی گئی کہ یہ صوبہ سرحد /پختونخواہ سے لائے گئے تھے اور ان کو ٹرکوں  کے زریعے 

صوبہ سرحد /پختونخواہ واپس  لے جایا جارہا تھا
یہ بڑی ہی عجیب اور احمقانہ بات ہے کہ
پہلے

صوبہ سرحد /پختونخواہ سے سندھ لایا گیا پھر اس کو واپس 
صوبہ سرحد /پختونخواہ لے جایا جارہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  پاکستان میں ایسا کون سا معصوم فرد ہے جو اس قدر اہم اور قیمتی اشیا ہزاروں میل دور سے کراچی لایا پھر اس کے بعد دوبارہ ان اشیا کو واپس لے جارہا تھا  
 وہ کون احمق اور جاہل فرد ہے  کہ جو لاکھوں روپے محض آمد و رفت کی مد میں خرچ کرے گا ؟؟؟

  آخر کس لیے ؟؟؟؟؟کیا کراچی لانا اور پھرصوبہ سرحد /پختونخواہ واپس لے گیا کیا وہ کوئی مذہبی رسم ادا کررہا تھا تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیَے کہ پاکستان میں ایسا کون سا خفیہ مذہب اور اس کے ماننے والے موجود ہیں یہ تو بڑی ہی خوشی کی بات ہے اور حکومت اور میڈیا کے لیئے ایک اہم ترین خبر بھی ہے  
جب کہ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس سارے ڈرامے کے مرکزی کردار اب  تک سامنے نہیں آسکے  ہیں آخر کیوں ؟؟؟؟؟؟

 ان سوالات کاایک جواب تو یہ سیدھا سا جواب ہے کہ یہ آثار                          

صوبہ سرحد /پختونخواہ سے بالکل نہیں لائے گئے بلکہ یہ سندھ ہی کہ کسی مقام سے در یافت کیئے گئے تھے  اور ان کو                       
صوبہ سرحد /پختونخواہ کے راستے افغانستان پھر وہاں سے چین اور مشرق بعید کے ممالک میں  لے جایا جاتا جہاں بدھ مذہب کے ماننے والے آج بھی اکثریت  میں  موجود ہیں  اب یہ سوال اٹھایا جائے گے کہ سندھ میں کونسے ایسے مقامات ہیں جہاں بدھ مذہب کے آثار موجود ہیں  تو اس کا ایک سیدھا سا  جواب تو یہ ہے کہ سندھ میں تھر پارکر کے علاقے میں آج بھی جین مت  اور بدھ مت کے مندر  موجود ہیں
 جبکہ شہر کراچی  یا سندھ کے ساحل کی قدیم تاریخ کا جائیزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آجائے گی کہ اس  ساحلی پٹی میں بے شمار شہر دور قدیم میں آباد تھے جب کہ یہ ساحلی پٹی زلزلوں کی پٹی کہلاتی ہے خود کراچی زلزلوں کی مشہور بیلٹ اللہ بندہ فالٹ پر آباد ہے  اس خطے میں دیبل نام کے ایک شہر کا تذکرہ بھی  ہمیں ملتا ہے مگر مورخین اوراسکالرز ہمیں اس سوال کا جواب اب تک نہیں دے سکے ہیں کہ دیبل شہر کہاں  غائب ہو گیا ہے؟؟؟؟
اس سوال کا جواب کچھ یوں ہے جس کو ہمارے مفاد پرست اسکالرز چھپاتے ہیں اور نااہل  نام نہاد اسکالرز نہیں جانتے ہیں
اس خطے کے قدیم نقشوں کا اگر جائیزہ لیا جائے جو یوروپی اسکالرز نے ترتیب دیئے ہیں تو دیبل کا مقام موجودہ کراچی کی وہ  ساحلی پٹی ہے جہاں پر موجودہ ابراہیم حیدری آباد ہے  وہی قدیم شہر دیبل کا مقام ہوسکتا ہے اور اگر حکومتی تحقیقاتی ادارے  تحقیق کریں تو یقینا ایسے مقامات  دریافت کرسکتے ہیں جہاں سےکھدائیوں کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے اور  چوری چھپے کھدایاں کی جارہی ہیں تاکہ ان اربوں ڈالرز کے اثار کو دوبارہ چوری چھپے زمین سے نکال کر  بیرنی دنیا میں فروخت کردیا جاِئے اس حوالے سے اگر کراچی کی ساحلی بستی ابراہم حیدری کا اگر جائیزہ لیا جائے تو یہ بات با آسانی سامنے آجائے گی کہ کچھ پراسرا ر افراد اس علاقے میں  اس وقت بھی باقائدہ مختلف جگہوں پر کھدایا ں کرتے ہوئے مل جائِیں گے  جن سے نہ تو مقامی افراد نہ تو کچھ دریافت  کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان مقامی افراد کی اتنی ہمت ہے مگر علاقے کی پولیس اور زمہ دار اس بات سے بخوبی واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے